بزم امین کی ہندی مجلس میں اس نو سالہ بچی نے تقریر کی تو دل و دماغ کے دریچے کھول دئیے‘ اس نےتقریر شروع کی تو بولی: آپ کسی بس میں سوار ہوئے‘ کنڈیکٹر آیا‘ آپ نے اس کو پیسے دئیے کہ ٹکٹ دے دو‘ کنڈیکٹر نے پوچھا کہاں کا؟ آپ نے کہا یہ تو پتہ نہیں کہاں جانا ہے؟ کہیں کا بھی دے دو‘ آپ سفر کررہے ہیں اور آپ کو یہ بھی پتہ نہیں کہ ٹکٹ کہاں کا لینا ہے تو آپ سفر کس طرح کریں گے؟ یہی حال اس انسان کا ہے جو زندگی کے اس سفر میں عمل تو کررہا ہے مگر اس عمل میں اس کی نیت کچھ بھی نہیں ہے بلکہ بے نیت مسافر کا حال‘ سچی بات یہ ہے کہ بے ٹکٹ مسافر کا ہے‘ آپ نے دیکھا ہوگا جگہ جگہ بسوں پر اسٹیشنوں پر بس اڈا پر لکھا رہتا ہے‘ تختیاں لگی رہتی ہیں ’’بنا ٹکٹ یاتری ہوشیار‘ کڑی سزا ملےگی‘‘ بے ٹکٹ سفر کرنے والا مسافر سزا کا مستحق ہے۔ اسی طرح بے نیت عمل کرنے والے کا حال بھی ہے کہ اللہ کا دیا ہوا وقت اورصلاحیت‘ آدمی بے نیت کسی عمل پر خرچ کررہا ہے تو اس کا وقت اور ساری صلاحیت و قوت بے مقصد ضائع ہورہی ہے۔ یہی سزا کیا کم ہے پھر دوسری بات یہ ہے کہ اگر نیت صحیح کرکےاخلاص نیت کے ساتھ یہ کام کرتا تو کتنا اجر ملتا‘ یہ اجرو ثواب اس کو نہیں ملےگا یعنی ہونے والے نفع سے بھی آدمی محروم رہے گا تو بے نیت کی اجرو ثواب سے محرومی اور وقت و صلاحیت کا ضیاع دوہری سزا ہوئی اور غلط اور بری نیت کرنے والا بدنیت آدمی تو غلط ٹکٹ لے کر سوار ہونےو الے کی طرح ہے‘ جانا تو دہلی ہے اور ٹکٹ سہارن پور کا لے کر بس پر بیٹھ گیا تواسے بے ٹکٹ سفر کرنے کا جرمانہ تو دینا ہی پڑے گا اور سہارن پور کے ٹکٹ کے پیسے مزید برباد گئے‘ یہ تو اور بھی خسارہ ہوا۔ اسی طرح گرھ اور منزل تو ہے اللہ کی رضا اور اللہ کی رضا کی جگہ جنت اور جنت میں اعمال پر اجرو ثواب کے وعدے ہیں تو اگر آدمی اس کی نیت نہ کرے‘ نام و نمود‘ دکھاوا اور ریاکاری کیلئے عمل کرے تو اس کی محنت تو ضائع ہوگی ہی، اللہ کی طرف سے ایسے اعمال پر سزا بھی ملے گی ہم نے فضائل اعمال میں پڑھا ہے کہ میدان محشر میں سب سے پہلے تین لوگوں کا حساب ہوگا‘ اس میں ایک عالم ہوگا، اس سے پوچھا جائے گا تجھے علم دیا گیا تو نے اس کا کیا حق ادا کیا؟ وہ کہے گا الٰہی! میں نے علم حاصل کیا اور بہت لوگوں کو پڑھایا اور وعظ و تقریر بھی کی، حکم ہوگا تو جھوٹا ہے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ عالم کہیں، سو کہا جاچکا اور منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر مال دار کو بلایا جائے گا اس سے بھی سوال ہوگا ہم نے تجھےمال دیا اس میں ہمارا کیا حق ادا کیا؟ وہ کہے گا میں نے مال، غریبوں ضرورت مندو اور خیر کے کاموں میں خرچ کیا، حکم ہوگا جھوٹا ہے تو نے یہ سب اس لیے خرچ کیا کہ سخی کہا جائے‘ سو کہا جاچکا اور منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کے بعدایک شہید کو بلایا جائے گا اس سے بھی سوال ہوگا، ہم نے تجھے جوانی دی تھی اس میں ہمارا کیا حق ادا کیا؟ وہ عرض کرے گا، میں نے تیرےراستہ میں جہاد کیا اور اپنی جان قربان کردی، حکم ہوگا، جھوٹا ہے، یہ سب اس لیے کیا کہ شہید کہا جائے سو کہا جاچکا اور اس کو بھی منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔تو بے نیتی اور بدنیتی کس قدرمحرومی اور بدبختی کی بات ہے۔ چند سال پہلے یہ تقریر اپنی بچی سےبزم امین کی مجلس میں میں نے سنی تھی۔ کتنی بار اس تقریر نے مجھے خبردار کی، بار بار دل کی گہرائی سے، بلکہ روئیں روئیں سے دعا نکلی، الحمدللہ الذی ہدانا لہذا وماکنا لنہتدی لولا ان ہدانا اللہ، مولائے کریم نے دین اسلام میں، دعوت کو ہمارا مقصدی فریضہ بنا کر دل دماغ اور علم وعمل کے دریچہ کھولنے کا کیسا مبارک نظام بنایا، جب آدمی دعوت کی راہ میں قدم رکھتا ہے اور دعوت سیکھنے کیلئے پر تولتا ہے تو نہ صرف اس کی عملی زندگی سنورتی ہے بلکہ اس پر اللہ کی رحمت سے علم و حکمت کے عجیب و غریب دریچے کھلتے ہیں اس نو سالہ بچی نے اخلاص نیت کی اہمیت اور بدنیتی اور بے نیتی کے سلسلہ میں ایک ایسی مثال سے بات سمجھائی جو نہ کسی کتاب میں پڑھی‘ نہ کسی حکیم سے اس سے پہلے سنی۔ بلاشبہ دعوت زندگی کے ہرموڑ اور ہر مسئلہ کیلئے شاہ کلید ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں